نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) سمارٹ فون صارفین کو آئے دن اپنے فونز میں نئی ایپلی کیشنز انسٹال کرنی پڑتی ہیں۔ ایسے میں وہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ کون سی ایپلی کیشن ان کے فون کی سکیورٹی کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے؟ سائبر سکیورٹی ماہرین نے صارفین کو اس حوالے سے کچھ مفید مشورے دیئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ماہرین نے سب سے پہلے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی تھرڈ پارٹی ایپ سٹور یا ویب سائٹ سے ایپلی کیشن ڈائون لوڈ مت کریں۔ اگر آپ کو تھرڈ پارٹی ایپ سٹور سے ہی ڈائون لوڈ کرنی ہے تو ایمازون ایپ سٹور یا سام سنگ گلیکسی سٹور جیسے مستند ایپ سٹورز کا انتخاب کریں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی بھی ایپلی کیشن ڈائون لوڈ کرنے سے پہلے اس کی پرائیویسی پالیسی یا ٹرمز آف سروس ضرور پڑھیں اور اس کے بعد ’ایکسیپٹ‘ کے بٹن پر کلک کریں۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو ایپ آپ فون میں انسٹال کرنے جا رہے ہیں وہ صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرکے اور اسے دیگر کمپنیوں کو فروخت کرکے پیسہ نہ کماتی ہو۔
اسی طرح جب بھی کوئی ایپ ڈائون لوڈ کرنے لگیں تو پہلے اس پر صارفین کے تبصرے (Reviews)ضرور پڑھیں اور وہ ایپلی کیشن کتنے لوگ اب تک ڈائون لوڈ کر چکے ہیں، اس تعداد کو بھی دیکھیں۔اگر صارفین تبصروں میں ایپ کے متعلق اچھی رائے ظاہر کر رہے ہیں اور کافی تعداد میں لوگ اسے ڈائون لوڈ بھی کر چکے ہیں تو آپ بھی اس ایپلی کیشن کو استعمال کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ایپلی کیشن غیرضروری آپ کی لوکیشن، فون گیلری، مائیکروفون اورکیمرے وغیرہ تک رسائی مانگتی ہیں۔ ایسی ایپس سے محتاط رہیں۔ انسٹاگرام ، ٹک ٹاک اور دیگر ایسی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز یقینا مائیکروفون اور کیمرے تک رسائی مانگتی ہیں کیونکہ ان ایپس پر آپ ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ کئی ایسی ایپلی کیشنز ہوتی ہیں، جن پر آپ ایسا کوئی کام نہیں کرتے، اس کے باوجود وہ مائیکروفون اور کیمرے وغیرہ تک رسائی مانگتی ہیں۔ ایسی ایپلی کیشنز ہرگز اپنے فون میں انسٹال مت کریں۔ذہن میں رکھیں کہ آپ ایسی ایپس انسٹال کرلیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اسے غیرضروری چیزوں تک رسائی نہیں دیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ آپ کی طرف سے رسائی نہ دینے کے باوجود بھی ان میں سے اکثر ایپلی کیشنز آپ کے فون کامائیک اور کیمرہ وغیرہ استعمال کر سکتی ہیں۔
شمالی امریکہ میں اردو کی آواز